ہیرے کی طرح روشن چمکتی آنکھوں والی شربت گلا کی یہ تصویر نیشنل جیوگرافک کے کور پیج پر ١٩٨٥ میں شائع ہوئی تھی وہ دنیا کے سب سے مشھور چہروں میں سے ایک چہرہ قرار پائی لیکن کتنی عجیب بات ہے شربت گلا جو ١٩٧٢ میں افغانستان کے دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئی تھی اس بات سے اس وقت تک ناواقف تھی جب ٢٠٠٢ میں یعنی اس کی تصویر کے دنیا بھر میں دھوم مچانے کے سترہ سال بعد فوٹو گرافر سٹیو میککری نے اسے ڈھونڈھ نکالا فوٹو گرافر نے اس دوران پاکستان اور افغانستان کے کئی چکر لگائے اور ٢٠٠٢ میں ناصر باغ کے مہاجر کیمپ میں اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچا جہاں یہ تصویر بنائی گئی تھی جب وہ بارہ سال کی تھی کھوجتے کھوجتے بالاخر شربت گلا کے بھائی اور شوہر سے رابطہ ہوا ، شربت گلا جو اب تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی اور افغانستان کے دور دراز گاؤں میں رہتی ہے انٹرویو دینے کے لئے راضی ہو گئی اور نیشنل جیو گرافک کی یہ لڑکی جو دنیا کے سو بہترین چہروں میں سے ایک تھی پہلی بار تصویر کے خالق سے ملی اور اسے معلوم ہوا کہ وہ تو دنیا کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے فوٹوگرافر نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا اور اسے یقین ہو گیا کہ وہ صحیح جگہ پہنچ گیا ہے سٹیو کا کہنا اس کی آنکھیں اب بھی ویسی ہی پرسرار کشش لئے ہوئے تھیں
شربت گل کو اپنے تصویر لئے جانے کا واقعہ اچھی طرح یاد تھا کیونکہ اس سے پہلے اس کی کبھی کوئی تصویر بنائی گئی تھی اور اسے یہ یوں بھی یاد تھا کہ اس نے جو اسکارف پہنا تھا وہ چولہا جلاتے ہوئے جگہ جگہ سے جھلس گیا تھا اور اس میں بہت سے سوراخ ہو گئے تھے ، شربت گل کے لئے یہ شہرت کوئی خاص اہمیت کی حامل نہ تھی لیکن اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے لئے ہمت اور جدوجہد کی پروقار مثال بن کر دنیا کے سامنے آئی تھی ، فوٹوگرافر نے اس کی آنکھوں میں خوبصورتی ہی نہیں ، درد ، ہمت اور حوصلے کو بھی ہمیشہ کے لئے منجمد کر دیا جو دیکھنے والے کو یہاں کے لوگوں کی ایک پروقار زندگی جینے کی جدو جہد کی یاد دلاتا رہے گا (سلمیٰ جیلانی – ٢٦ جنوری ٢٠١٥)