میں ایک حوت ہوں

Poem: I am a Pisces

By: Tamara Galiulina

میں ایک حوت ہوں

میں بے قرار ہوں بحر بیکراں کے لئے

مجھے بھاتی ہیں اچھلتی ہوئی مضطرب لہریں

جب وہ کھیلتی ہیں ابھرتے سورج کی کرنوں سے

یا چاندنی رات میں چمکتی ہیں دن کے ڈھل جانے کے بعد

میں ایک حوت ہوں

سمندر کی لہریں مجھے اکساتی ہیں

ابھی پرسکون ہیں ، ابھی بپھری ہوئی

طوفان اور بجلی کی سی تڑپ سے بھری ہوئی

میں حوت ہوں ! جو کہتی ہوں سمندرمیں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے

میں مستحکم ہوں، ناقابل شکست ہوں اور ہار نہیں مان سکتی

میں ایک حوت ہوں

جیسے مچھلی سمندر میں

میں آزاد ہوں

جہاں دل چاہے جاؤں ،گہرے غوطے لگاؤں

کوئی شے مری سمت نہیں بدل سکتی

میں اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہوں

اور دل کے رابطوں کو محسوس کرتی ہوں

ان لوگوں کے ساتھ جو مہربان ہیں اور جن سے میں محبت کرتی ہوں

چاہے وہ ہنگامہ خیز ہوں یا پرسکون

میں اپنے خوابوں کو تعبیر دوں گی

کیونکہ

میں ایک حوت ہوں

توانا اور آزاد

  (اردو روپ : سلمی جیلانی)

 

I am a Pisces

I long for the ocean

I like watching waves in their powerful motion,

When they play with the rays of the rising sun

Or shine in the moonlight when the day is gone.

 

I’m a Pisces.

The sea waves excite me.

Now calm, now raging with storms and lightning.

I’m a Pisces! The sea echoes back what I say.

I’m strong. I’m invincible. I won’t give way.

 

I’m a Pisces

Like fish in the sea

I go where I want, I swim deep and I’m free

Nothing can make me change my direction

I follow my dream and I feel heart connection

With those I love, with people of goodwill

Be it stormy or calm, I’ll fulfill my dream

Because I’m a Pisces

I’m strong

I’m free.

 

اک سنگریزے کی ان کہی کہانی

 

صبح سویرے

ساحل دریا کی سفید ریت پر

شادمانی سے ٹہلتے ہوئے

میں نے اپنی ڈینم جینز کے پائنچے چڑھائے

اور جھک کر

سورج کی کرنوں سے

جگمگا تے سنگریزوں کو اٹھانے کی سعی کی

 

کا ئی سے ڈھکی

اک چٹان کے نیچے

رنگ و روپ سے عاری

کسی بچے کی طرح

معصومیت کی تصویر

وہ (ایک سنگ ریزہ) گویا ہوا

پلیز ، میں تمہاری منت کرتا ہوں

مجھے کچھ دیر آرام کرنے دو

میں تھک گیا ہوں ایک لمبے کٹھن سفر کے بعد

 

کیا واقعی

یہ ایک خاموش فریاد تھی جو مجھے سنائی دی

یا پھر ہمیشہ کی طرح

میرے ذہن کی کوئی اخترا ع تھی

میں نے تھرتھراتے ہاتوں سے

بصد احترام اسے واپس رکھ دیا

اے ، اس نے دوبارہ پکارا

سنو اک بار پھر

یہ تو میری عارضی جائے روئیدگی ہے

میں اپنی کہانی میں تم کو شریک کرنا چاہتا ہوں

اور بتانا چاہتا ہوں

کہ ایک ولولہ انگیز سفرسے یہاں تک کیونکر پہنچا

اگرچہ میرا رنگ ، روپ

اورقد و قامت کھو چکا ہے

وہ کسی بچے کی طرح گھگھیایا

جیسے منتظر ہو

میری آنکھوں میں انگیزش کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے

ضرور

حیرت زدہ ہو کر

میں نے زور سے کہا ، تم شرط لگا لو

میں انتظار نہیں کرسکتی،

پر میں واپس آؤں گی

غروب آفتاب تک

لیکن جب میں دوبارہ وہاں پہنچی

میری آنکھوں کے سامنے

اک بڑی،طوفانی لہر اسے بہا کر لے گئی

  (نظم: ممتا اگروال، اردو مفہوم: سلمیٰ جیلانی)

An untold story of a pebble

By: Mamta Agarwal

 

Blissfully, at sunrise, walking

On the white sandy river beach,

I folded my denim jeans

And bent down to reach

Out for some pebbles;

Resplendent in the Sun rays,

 

Below a

Moss covered rock

In the palest of hues,

Childlike, picture of

Innocence…

Please, I beseech

Let me rest a while,

Am tired of an arduous

Journey…

 

Did I hear

A silent plea,

Or my mind as usual

Was in overdrive…

Tremulously, I put it back-

With reverence.

 

Hey, it called back,

Come again

This is my temporary habitat,

I want to share the story

Of my adventure

And how I ended here.

 

Although my colour, shape

And size gives away,

It entreated

Like a child,

Waiting for a gleam

Of excitement in my eyes.

 

To my surprise,

I said out aloud, you bet

I can’t wait,

I shall return at sunset.

But when I went back

Before my eyes

A big, gushing wave

Carried it away…